تفسير ابن كثير



سورۃ النحل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ[98] إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ[99] إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ[100]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس جب تو قرآن پڑھے تو مردود شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کر۔ [98] بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کا ان لوگوں پر کوئی غلبہ نہیں جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔ [99] اس کا غلبہ تو صرف ان لوگوں پر ہے جو اس سے دوستی رکھتے ہیں اور جو اس کی وجہ سے شریک بنانے والے ہیں۔ [100]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] قرآن پڑھنے کے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناه طلب کرو [98] ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اس کا زور مطلقاً نہیں چلتا [99] ہاں اس کا غلبہ ان پر تو یقیناً ہے جو اسی سے رفاقت کریں اور اسے اللہ کا شریک ٹھہرائیں [100]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو [98] کہ جو مومن ہیں اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اُن پر اس کا کچھ زور نہیں چلتا [99] اس کا زور ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو رفیق بناتے ہیں اور اس کے (وسوسے کے) سبب (خدا کے ساتھ) شریک مقرر کرتے ہیں [100]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 98، 99، 100،

آعوذ کا مقصد ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنے مومن بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ ” قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے وہ اعوذ پڑھ لیا کریں “۔ یہ حکم فرضیت کے طور پر نہیں۔

ابن جریر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ آعوذ کی پوری بحث مع معنی وغیرہ کے ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں فالحمداللہ۔

اس حکم کی مصلحت یہ ہے کہ قاری قرآن میں الجھنے، غور و فکر سے رک جانے اور شیطانی وسوسوں میں آنے سے بچ جائے۔ اسی لیے جمہور کہتے ہیں کہ قرأت شروع کرنے سے پہلے آعوذ پڑھ لیا کر۔ کسی کا قول یہ بھی ہے کہ ختم قرأت کے بعد پڑھے۔ ان کی دلیل یہی آیت ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور احادیث کی دلالت بھی اس پر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

پھر فرماتا ہے کہ ” ایماندار متوکلین کو وہ ایسے گناہوں میں پھانس نہیں سکتا، جن سے وہ توبہ ہی نہ کریں۔ اس کی کوئی حجت ان کے سامنے چل نہیں سکتی، یہ مخلص بندے اس کے گہرے مکر سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہاں جو اس کی اطاعت کریں، اس کے کہے میں آ جائیں، اسے اپنا دوست اور حمایتی ٹھہرا لیں۔ اسے اللہ کی عبادتوں میں شریک کرنے لگیں۔ ان پر تو یہ چھا جاتا ہے “۔

یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ب کو «سبـبـیہ» بتلائیں یعنی وہ اس کی فرمانبرداری کے باعث اللہ کے ساتھ شرکت کرنے لگ جائیں، یہ معنی بھی ہیں کہ وہ اسے اپنے مال میں، اپنی اولاد میں شریک الہ ٹھہرا لیں۔
4523



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.